بنگلہ دیش کی پہلی خاتون وزیرِاعظم خالدہ ضیال 80 سال کی عمر میں انتقال کرگئیں
ڈھاکہ: بنگلہ دیش کی سابق وزیرِاعظم بیگم خالدہ ضیا 80 برس کی عمر میں 30 دسمبر کی صبح ڈھاکہ کے ایک نجی اسپتال میں انتقال کر گئیں۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق بنگلہ دیش کی پہلی خاتون وزیراعظم اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) کی چیئرپرسن بیگم خالدہ ضیا 80 برس کی عمر میں 30 دسمبر کی صبح ڈھاکہ کے ایک نجی اسپتال میں انتقال کر گئیں۔
ان کی جماعت نے فیس بک پر جاری بیان میں تصدیق کی کہ وہ صبح 6 بجے دنیا سے رخصت ہوئیں۔
خالدہ ضیا کی وفات کے ساتھ ہی بنگلہ دیش کی سیاست کا ایک طویل اور فیصلہ کن باب بند ہو گیا۔
وہ اور ان کی سیاسی حریف شیخ حسینہ واجد، جو اس وقت بھارت میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں، گزشتہ تین دہائیوں تک ملکی سیاست پر چھائی رہیں۔ دونوں رہنماؤں کو بنگلہ دیش میں ’’بیٹلنگ بیگمز‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔
خالدہ ضیا 15 اگست 1946 کو دیناج پور میں پیدا ہوئیں۔ ان کی سیاسی زندگی کا آغاز کسی ذاتی خواہش سے نہیں بلکہ ایک قومی سانحے کے بعد ہوا، جب 1981 میں ان کے شوہر اور اس وقت کے صدر، جنرل ضیاء الرحمٰن، ایک فوجی بغاوت میں قتل کر دیے گئے۔
اس واقعے کے بعد ملک ایک بار پھر عدم استحکام کا شکار ہوا اور 1982 میں جنرل حسین محمد ارشاد نے مارشل لا نافذ کر کے اقتدار سنبھال لیا۔
انہی حالات میں خالدہ ضیا نے عملی سیاست میں قدم رکھا۔ 1984 میں وہ BNP کی چیئرپرسن بنیں اور فوجی آمریت کے خلاف جمہوریت کی بحالی کی تحریک میں ایک نمایاں کردار ادا کیا۔
متعدد بار نظر بندی اور گرفتاری کے باوجود انہوں نے جنرل ارشاد کے خلاف جدوجہد جاری رکھی۔
1991 میں فوجی حکومت کے خاتمے کے بعد ہونے والے انتخابات میں خالدہ ضیا بنگلہ دیش کی پہلی منتخب خاتون وزیرِاعظم بنیں۔
اس کے بعد وہ تین مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز رہیں (1991–1996، 1996 اور 2001–2006)۔
ان کے حامیوں کے مطابق ان کے دورِ حکومت میں معیشت کو استحکام ملا، برآمدات میں اضافہ ہوا، گارمنٹس انڈسٹری نے ترقی کی اور لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ ملا۔
سال 2006 میں ان کے دور کے اختتام پر بنگلہ دیش کی معاشی شرحِ نمو تقریباً 7 فیصد تک پہنچ چکی تھی۔
تاہم، ان کی سیاسی زندگی تنازعات سے خالی نہیں رہی۔ ان پر اور ان کے خاندان، بالخصوص ان کے بڑے بیٹے طارق رحمان، پر بدعنوانی کے الزامات لگتے رہے۔
2004 میں شیخ حسینہ کے جلسے پر ہونے والے گرنیڈ حملے اور اس کی تحقیقات پر بھی ان کی حکومت کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
ان عوامل نے ملک کو ایک بار پھر سیاسی بحران کی طرف دھکیل دیا، جس کے نتیجے میں 2007 میں فوج کی حمایت سے ایک عبوری حکومت قائم ہوئی۔
2018 میں بدعنوانی کے مقدمات میں سزا کے بعد خالدہ ضیا نے طویل عرصہ جیل اور نظر بندی میں گزارا۔
ان کی صحت بتدریج خراب ہوتی گئی، تاہم انہوں نے ملک چھوڑنے سے انکار کیا، جسے ان کے حامی ان کی ثابت قدمی کی علامت قرار دیتے ہیں۔
خالدہ ضیا کو ان کے نرم لہجے، سیاسی مخالفین کے خلاف غیر اشتعال انگیز زبان اور مشکل حالات میں صبر و تحمل کے لیے بھی یاد رکھا جائے گا۔
اگست 2024 میں شیخ حسینہ کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد انہوں نے اپنے کارکنان کو انتقامی کارروائیوں سے باز رہنے کی تلقین کی، جسے سیاسی حلقوں میں غیر معمولی رویہ قرار دیا گیا۔
اب ان کی وفات کے بعد BNP کے مستقبل پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ان کے واحد زندہ بیٹے طارق رحمان، جو کئی برس جلاوطنی میں رہنے کے بعد حال ہی میں وطن واپس آئے ہیں، پارٹی کی قیادت سنبھال چکے ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق فروری میں ہونے والے عام انتخابات نہ صرف بنگلہ دیش کے سیاسی مستقبل کا تعین کریں گے بلکہ یہ بھی واضح کریں گے کہ آیا عوام خالدہ ضیا کے سیاسی وارث پر اعتماد کرتے ہیں یا نہیں۔
خالدہ ضیا کو بنگلہ دیش کی تاریخ میں ایک ایسی رہنما کے طور پر یاد رکھا جائے گا جنہوں نے آمریت کے خلاف جدوجہد کی، اقتدار کی سختیاں جھیلیں اور ایک قدامت پسند معاشرے میں خواتین کی قیادت کی راہ ہموار کی۔